دہشت گرد

رات کا آخری پہر ہوچکا تھا لیکن وہ ابھی تک جاگ رہا تھا حالانکہ اس جیسے کئی لوگ فٹ پاتھ پر گہری نیند سوئے ہوئے تھے اور ابھی کچھ دیر بعد خوابِ غفلت سے بیدار ہونے والے تھے لیکن اس نے اپنی ساری رات بے قراری میں گزار دی تھی۔ آج اسے اپنی ماں کی یاد شدّت سے ستّا رہی تھی جو شہر سے دُور افتادہ گاﺅں میں رہتی تھی اور بیٹے کی واپسی کی راہ دیکھتی رہتی تھی کیونکہ اس کا بیٹا اپنی ماں کی خوشیوں کی خاطر شہر مزدوری کے لیے گیا ہوا تھا لیکن اسے شہر میں دو ہفتے مسلسل دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود مزدوری کہیں نہ مل سکی تھی جس کی وجہ سے وہ زندگی سے مایوس ہوکر خودکشی کا ارادہ کر بیٹھا تھا لیکن پھر ماں کا خیال آنے کی بدولت وہ اپنے ارادے سے منحرف ہوگیا۔ اس کی ماں نے بیوہ ہونے کے باوجود اپنے اپاہج بیٹے کی پرورش اور علاج معالجے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی کیونکہ وہ بچپن میں سخت بیمار ہوگیا تھا اور چلنے پھرنے سے معذور تھا تو اس کی ماں نے مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود اس کا علاج سخت محنت مزدوری سے پیسہ کما کر کروایا تھا۔ اب جبکہ یہ ماں کی محبت اور توجہ کی بدولت اتنا تندرست ہوگیا کہ محنت مزدوری کرسکے تو وہ اپنی ماں کا سہارا بننے کی خاطر شہر مزدوری کرنے کے لیے چلا آیا تھا لیکن شہری لوگ اس کے کمزور جسم اور ٹانگ کی لنگراہٹ کی بنا پر مزدوری کے لیے نہیں لے کر جاتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک کمزور جسامت والا شخص بھاری کام نہیں کرسکتا تھا۔ مزدوری نہ ملنے کے سبب وہ سخت پریشان تھا کیونکہ نوبت فاقوں تک پہنچ چکی تھی چنانچہ اس نے مجبوراً بھیک مانگنا شروع کر دی تھی۔ وہ بھیک مانگنے کے فن سے ناآشنا تھا جس کی وجہ سے اسے بھیک نہایت قلیل ملتی تھی جس سے اس کی بمشکل اپنی گزر بسر ہوسکتی تھی لیکن وہ اپنی ماں کا سہارا بننے کی خاطر شہر آیا تھا اور یہاں بھیک مانگ کر بھی وہ اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے مالی حالات میں وہ ماں کے بڑھاپے کا سہارا نہیں بن سکتا تھا، اسی لیے تو وہ پریشان تھا۔ پریشانی میں ہی اس کی ساری رات بسر ہوگئی تھی۔
صبحِ کاذب کا اُجالا کافی پھیل چکا تھا مگر سڑک کے کنارے جلنے والی ٹیوب لائٹس ابھی تک روشن تھیں۔ اس قدر اجالے میں وہ فٹ پاتھ پر لیٹا اپنی نظریں آسمان پر ٹکائے اپنی ہی سوچ میں مگن تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بوڑھے پر پڑی جس کا چہرہ اور سر بہت بڑا تھا۔ سر کے بال چھوٹے چھوٹے لیکن سفید تر تھے۔ اوپر والے ہونٹ اور ناک کے درمیان خاصی چوڑی جگہ موجود تھی جس پر دونوں کانوں کی لوﺅں تک سفید گھنی مونچھیں اُگی ہوئی تھیں اور انہیں سلیقے کے ساتھ تراش کر کمان کی شکل دی ہوئی تھی۔ وہ جسمانی طور پر طویل قامت، چوڑے چکلے پہلوان کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ بوڑھا ہونے کے باوجود بڑی پھرتی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں سامان کے بھرے ہوئے تھیلے پکڑے ہوئے تھا، جس میں پھل اور صبح کے ناشتے کے لیے چیزیں تھیں اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا چنانچہ اس بوڑھے پر نظر پڑتے ہی اس کی بھوک اچانک چمک پڑی تھی اور وہ ندیدوں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال ابھرا اگر میں اس بوڑھے پر اچانک حملہ آور ہو کر یہ اشیاءچھین لوں تو یہ بوڑھا بُوکھلا جائے گا اور میں آسانی سے اس کا سامان لے کر نو دو گیارہ ہو جاﺅں گا اور یہ بوڑھا ہونے کے سبب زیادہ سے زیادہ شور ڈال سکتا ہے لیکن میرا تعاقب نہیں کرسکتا لہٰذا وہ قسمت آزمائی کے لیے بوڑھے کے تعاقب میں چل نکلا۔ کچھ دور تعاقب کرنے کے بعد بوڑھے کا گزر نسبتاً سنسان گلی میں ہوا اور اس نے موقع غنیمت جانا کیونکہ یہاں پر بوڑھے کا واویلا سننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے اِدھر اُدھر کا جائزہ لے کر اپنے اندر ہمت پیدا کی کیونکہ وہ زندگی میں پہلی بار رہزنی کی واردات کرنے لگا تھا حالانکہ وہ اندر سے بالکل سہما ہوا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنی بھوک مٹانے کی خاطر اپنے اندر ہمت پیدا کی اور بوڑھے پر ٹوٹ پڑا اور اس کے دونوں ہاتھوں سے تھیلے چھین کر بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن اِس کے سارے منصوبے درّے کے درّے رہ گئے کیونکہ اِس نے بوڑھے سے شاپر تو چھین لیں تھے لیکن زیادہ دور بھاگ نہ سکا اور بوڑھے نے اپنے آہنی ہاتھوں سے اس کو فوراً قابو میں کر لیا تھا۔
وہ اپنی رہزنی کی واردات پر شرم محسوس کر رہا تھا اور پریشان تھا جس کی وجہ سے اس کی قوت شل ہوگئی تھی اور اس کا چہرہ شرم سے تمتما اُٹھا تھا۔ اچانک اِس کی ٹھوڑی پر آہنی ہاتھ کا دباﺅ پڑا اور جھٹکے کے ساتھ اِس کا چہرہ اوپر اٹھا دیا گیا لیکن اِس نے آنکھیں جھکا دیں۔ خوف کے باعث خون کی ایک تیز و تند سرد سی لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ اس کی ٹانگیں من من بھر کی ہو کر لرز رہی تھیں وہ کانپتا لرزتا ہوا بت بنا کھڑا تھا۔ لیکن بوڑھا اس کے اندر جھانک رہا تھا قبل اس کے کہ بوڑھا اس کی اِس جسارت کے صلّے میں ایک دو تھپڑ رسید کرتا وہ اس سے کہنے لگا:
”کب سے یہ کام کر رہے ہو؟“
”صاحب جی میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں چور نہیں ہوں۔“
”تو پھر تم میرا امتحان لے رہے تھے کہ اس عمر میں بھی میرے وجود میں طاقت ہے کہ نہیں؟“
”صاحب جی میں بھوکا ہوں اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے میں نے یہ حرکت کی ہے۔ صاحب میں وعدہ کرتا ہوں کہ بھوکا مر جاﺅں گا لیکن اب آئندہ سے ایسی حرکت نہیں کروں گا۔“ اس کا گلا رندھ گیا اور سسکیاں دبانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ کہنی کے خم میں چھپا لیا۔
بوڑھے نے اسے تھپڑ مارا ”جھوٹ بولتے ہو کہ اب میں بھوکا مر جاﺅں گا لیکن چوری نہیں کروں گا۔“ بوڑھے نے بلند آواز سے کہا تھا جس کی بنا پر اس کے بدن میں سرد لہر آگئی تھی۔
”اپنی بھوک مٹانے کی خاطر کسی کے منہ کا نوالہ چھیننا کیا انسان کو زیب دیتا ہے؟ بتاﺅ مجھے۔“ بوڑھے نے پھر کرخت دار آواز سے کہا تھا۔
چند لمحے وہ اپنے گلے میں آئی آنسوﺅں کی جلن سنبھالتا رہا پھر بولا:
 ”صاحب جی آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطر دوسرے انسان کے منہ کا نوالہ چھیننا نہیں چاہیے لیکن صاحب جی جب انسان کے پاس ہارنے کے لیے کوئی چیز ہی باقی نہ رہے تو وہ پھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر زندگی کی بازی کھیلتا ہے۔ سو میں نے بھی زندگی میں پہلی بار خطرہ مول لے کر ایک بازی کھیلی تھی، جس مِیں مَیں ناکام رہا ہوں اور اب آپ کے رحم کا طلب گار ہوں۔“
”بہت اچھے، تم نے بہت اچھی بات کہی ہے اور میرا دل جیت لیا ہے کیونکہ میں خود یہ بات مانتا ہوں بلکہ تسلیم کرتا ہوں کہ جب انسان خطرے میں ہو اس کی عزّت اور جان داﺅ پر لگی ہو تو وہ بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لے لیتا ہے اور اپنا تن، من، دھن، ذہانت، بہادری سب کچھ صرف کرکے صرف کامیابی کے لیے داﺅ کھیلتا ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ تم واقعی بہادر انسان ہو اور دنیا کی سختیوں کا مقابلہ کرسکتے ہو اور میں تم جیسے بہادر اور ذہین شخص کو بھوکا مرنے نہیں دوں گا۔ چلو میرے ساتھ، میں تم کو نہ صرف کھانا کھلاتا ہوں بلکہ ترقی کی نئی راہ بھی دکھاتا ہوں۔ اگر تم نے اپنی قوّت، طاقت، ذہانت کو زائل نہ کیا اور ڈرے نہ تو پھر دیکھنا تم ایک دن اس ملک کے امیر ترین شخص ہو گے۔“
وہ احساسِ تشکر سے بھیگ گیا اور اس کے ہونٹوں پر بھنچی بھنچی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ اس نے اقرار میں سر ہلا دیا تو اس بوڑھے نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا:
”چلو میرے ساتھ کامیابی کے راستے کی طرف۔“
وہ فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور چاولوں کے ڈھیر پر دال انڈیل کر اپنی میلی کچیلی انگلیوں سے مسل مسل کر لقمے بنا کر کھانے لگا پھر چاول ختم کرنے کے بعد وہ دال چاول سے لتھڑی ہوئی انگلیوں کو منہ میں دبا کر چوس چوس کر صاف کرنے لگا تو بوڑھے کو اچانک ابکائی آئی لیکن اسے ضبط سے کام لینا پڑا کیونکہ وہ اس پر اپنی کراہت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چاولوں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ بوڑھے کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا تو بوڑھا کہنے لگا:
”تم کچھ دیر کے لیے لیٹ جاﺅ کیونکہ پُرسکون نیند سے انسان کے اندر نئی توانائی پیدا ہوتی ہے جس سے بہت سکون ملتا ہے لہٰذا تم کچھ دیر کے لیے نیند کے مزے لوٹ لو پھر میں تمہیں تمہارا کام سمجھا دوں گا۔ 
آج وہ ایک مدّت کے بعد مکمل اور فطری نیند سے محظوظ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ خود کو ترو تازہ محسوس کر رہا تھا کہ اچانک بوڑھا جو اس کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس کی طرف سگریٹ کا پیکٹ بڑھا کر اسے سگریٹ کی آفر کرنے لگا۔ اس نے ایک سگریٹ لے لی۔ بوڑھے نے اپنی اور اس کی سگریٹ کو شعلہ دکھایا اور وہ دونوں سگریٹ کے لمبے لمبے کش لینے لگیں پھر جب دھویں سے دوبارہ ان کا چہرہ واضح ہوا تو بوڑھا کہنے لگا:
”ہاں تو تمہیں عزت، دولت، شہرت چاہیے۔“
”صاحب جی مجھے عزت، شہرت اور دولت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ انسانوں کے درمیان حسد، جلن اور رقابت پیدا کر دیتی ہے۔ مجھے تو بس اتنا چاہیے جس مِیں مَیں اور میری ماں آسانی سے دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔“
بوڑھے نے سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ کر الماری سے ایک لاکھ روپے کے نوٹ اس کے سامنے بڑھا کر کہا:
 ”اس سے تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔“
اتنے سارے نوٹ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک نمودار ہوگئی وہ یوں پلکیں جھپکانے لگا جیسے گہرے پانی سے نکل کر آیا ہو۔ پھر تیوریوں پر بل ڈال کر اس نے سگریٹ دیکھی اور میز پر رکھی ہوئی پلاسٹک ایش ٹرے میں گل جھاڑ کر دوبارہ ایک زور دار کش لیا۔ اس کے گال اندر دھنس گئے پھر اس نے دھواں اگلتے ہوئے کہا: 
”صاحب مجھے کرنا کیا ہوگا؟“
بوڑھے نے اپنا چشمہ ناک پر رکھتے ہوئے کہا :
 ”تم کو ایک بریف کیس دیا جائے گا جو تم نے میری بتائی ہوئی جگہ پر رکھ کر واپس آجانا ہے۔“
”صاحب جس بریف کیس کو میں نے مطلوبہ جگہ پر رکھنا ہے اس میں کیا ہوگا؟“
”تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ تمہیں صرف ایک بریف کیس رکھنے کی قیمت ایک لاکھ روپے مل جایا کرے گی۔ اس کے علاوہ تمہیں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یہ سُن کر اس کے دماغ میں مختلف سوچیں آڑھی ترچھی اُڑتی پھرنے لگیں اور وہ انہی سوچوں میں اُلجھ کر رہ گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس کام کی خامی بھر لوں یا انکار کر دوں کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ بریف کیس میں آتش گیر مادے کے سوا اور کچھ ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ اپنی پریشانی بوڑھے کے گوش گزار کرنے کی خاطر کہنے لگا:
”صاحب آپ نے خود مثال دی تھی کہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطر کسی کے منہ کا نوالہ چھیننا انسان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ لہٰذا آپ نے جو کام بتایا ہے وہ بھی تو ایسا ہی کام ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کی جان لے لی جائے۔“
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا: 
”تم واقعی ذہین انسان ہو اور میں ذہین لوگوں کی قدر کرتا ہوں لیکن تم ذرہ اپنے سابقہ حالات کا موازنہ کرو جس میں تم کو بھوک کے سوا کچھ نہیں ملا تو پھر آئندہ کے لیے نتیجہ اخذ کرو لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ اس معاشرے میں اپنے منہ کا نوالہ چھین کر لیا جاتا ہے۔“
”صاحب میں ایسا کام نہیں کرسکتا۔“
”تو پھر کیا کروں گے بھوکے مر جاﺅں گے۔ میری جان، اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اپنا حق چھیننا پڑتا ہے کیونکہ یہاں مانگنے سے کوئی کچھ نہیں دیتا، اسی لیے اپنا حق چھیننا پڑتا ہے۔ سو تمہیں بھی ایک موقع ملا ہے اپنا حق حاصل کرنے کا، سو تم اپنا حق حاصل کرو۔ اس چکر میں مت پڑو کہ تمہاری وجہ سے کتنا نقصان ہوگا بلکہ اپنا فائدہ دیکھو۔“
”صاحب اِس میں تو میری جان بھی جاسکتی ہے۔“
”ہرگز نہیں، اس دھماکہ خیز مواد کا ریموٹ کنٹرول تمہارے ہاتھ میں ہوگا جب تم بریف کیس مناسب جگہ پر رکھ کر کافی دُور چلے جاﺅ گے تو تم اس ریموٹ کنٹرول کو دَبادینا اور دھماکہ ہو جائے گا۔“
”لیکن صاحب....“
”لیکن ویکن اس دنیا میں نہیں چلتی یہاں تو بس ذاتی مفاد چلتا ہے۔ تم بھی ہوش سے کام لو، سکون اور اطمینان کے ساتھ میری تجویز پر غور و فکر کرو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ورنہ تم دربدر کی ٹھوکریں کھا کھا کر ایسے ہی بھوکے مر جاﺅں گے۔ تم اپنی بھلائی کی خاطر ضد کو چھوڑ دو کیونکہ ضد سے انسان کو نقصان ہوتا ہے لہٰذا تم ضد سے باہر نکل کر سوچو اور اپنے حق میں بہتر فیصلہ کرو۔“
”صاحب یہ تو شرم کی بات ہے کہ انسان اپنے فائدے کی خاطر کسی دوسرے شخص کی جان لے۔“
”اس میں کوئی شرم کی بات نہیں یہ تو ایک کام ہے، جس کا معاوضہ تمہیں ملے گا، جو تمہارا حق ہوگا۔ اگر یہ کام تم نے نہ کیا تو کوئی دوسرا شخص کر دے گا، کام تو بہرحال ہونا ہے۔ میں تو تمہاری مفلسی دُور کرنے کی خاطر تمہیں یہ کام کرنے کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بھی اپنی بھلائی کے لیے بہتر فیصلہ کروں۔ ویسے میں یہ بات جان چکا ہوں کہ تم شریف انسان ہو اور میرے نزدیک شریف انسان احمق ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت بدنامی سے ڈرتا رہتا ہے اور اسی لیے ترقی نہیں کرسکتا۔ دیکھو جس طرح تم نے کسی شرم اور بدنامی کے خوف کے بغیر راہ زنی کی واردات کی ہے اسی طرح یہ بھی کر گزروں کیونکہ یہ اس سے آسان کام ہے اور معاوضہ تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہے۔“
اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک سرد آہ بھری اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے آنکھوں کو اس طرح مسلنے لگا جیسے دن میں تیرنے والے آنسو خشک کرنا چاہ رہا ہو۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دائرے سے ناچ رہے تھے، اندھیرا چھا رہا تھا، لیکن وہ اپنے اوپر حاوی خوف پر آہستہ آہستہ قابو پا رہا تھا۔ یوں وہ کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد کھڑا ہوگیا اور پھر مختاط انداز میں اِدھر اُدھر کا جائزہ لیتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا:
”صاحب وہ سب کچھ کروں گا جس سے رقم ہاتھ آتی ہو۔“
”شاباش شاباش میرے بچے! تم نے واقعی دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس سے تم کسی کا حق چھینو گے نہیں بلکہ اپنا حق حاصل کروں گے اور ترقی کی منازل طے کرو گے۔“
سورج ابھی ابھی غروب ہوا تھا لیکن اوپر آسمان پر اور نیچے زمین پر حدنگاہ تک روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ سڑک ٹریفک سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور بس اسٹاپ پر بھی لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ علاقے کے تمام کے تمام باشندے گھروں کو چھوڑ کر یہاں پر آ کھڑے ہوگئے ہیں اور وہ بھی اس ہجوم میں کھڑا ہوگیا اور مناسب جگہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ اچانک اُس کے ہاتھ میں پکڑے بریف کیس میں موجود آتشی مواد زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی اور لوگوں کے پرخچے اڑ چکے تھے۔
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6