ٹیلی ویژن

علی پور بیس پچیس گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاﺅں تھا۔ جس میں کوئی مسجد نہیں تھی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ نماز روزے کی اہمیت سے ناآشنا تھے حالانکہ ان کے دل میں اللہ کا خوف اور رسول کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گاﺅں کے ہر گھر میں قرآن مجید موجود تھا اور انہوں نے قرآن مجید کو احتراماً خوبصورت اور قیمتی کپڑے کے جزدان میں لپیٹ کر اونچی طاق پر سجا رکھا تھا وہ سمجھے تھے کہ قرآن مجید کا ہر مسلمان کے گھر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس کو ادب و احترام کے ساتھ اونچی طاق پر رکھنا اجر و ثواب اور باعثِ برکت ہوتا ہے۔ گاﺅں والوں کو قرآن مجید کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب کسی شخص سے قسم لینی ہوتی یا پھر کسی سے سچ بات اگلوانی ہوتی تھی۔ وہ لوگ قرآن مجید پر قسم کے لیے ہاتھ رکھنے اور رکھوانے سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ ”اپنے حساب“ سے وضو کرتے اور پھر اُسی احترام کے ساتھ قسم کے لیے قرآن مجید کو طاق سے اٹھا کر لاتے اور جس احترام کے ساتھ قرآن مجید کو اٹھا کر لاتے تھے اسی ادب و احترام کے ساتھ قسم کی ادائیگی کے بعد دوبارہ وہاں پر سجا کر رکھ دیتے تھے۔ گاﺅں بھر میں قرآن مجید کا استعمال اسی حد تک محدود تھا۔ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا موجود تھا اور وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی باتیں سننا پسند کرتے تھے اسی لیے تو قصبے کی جامع مسجد کے امام صاحب مہینے بھر میں ایک مرتبہ ضرور علی پور گاﺅں میں آتے اور لوگوں کو دین حق کی باتیں بتا کر مسجد کے لیے چندہ اور اپنے لیے جزائے خیر لے کر چلے جاتے تھے۔ ویسے تو مولوی صاحب نکاح پڑھوانے اور جنازہ پڑھنے کے لیے گاﺅں میں نظر آ ہی جاتے تھے لیکن تبلیغ کے لیے انہوں نے مہینے میں ایک دن مقرر کیا ہوا تھا۔ لوگ جوق در جوق اس دن چوہدری فضلو کے گھر اکٹھے ہوتے تاکہ مولوی کی باتوں سے فیض یاب ہوا جاسکیں۔ چودھری فضلو مذہب سے بہت گہرا لگاﺅ رکھتا تھا حالانکہ اسے خود بھی دین اسلام کے متعلق کوئی خاص معلومات نہ تھی لیکن پھر بھی اس کے دل میں اسلامی احکام سمجھنے کی تڑپ موجود تھی یہی وجہ تھی کہ وہ مولوی صاحب کی تقریر کے لیے خاص اہتمام کرتا تھا اور سب گاﺅں والوں سے بڑھ کر مولوی صاحب کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا کرتا تھا حالانکہ وہ چھوٹا سا زمیندار تھا لیکن خدا کی راہ میں دینے کے لیے کبھی اس نے بخل سے کام نہیں لیا تھا اور مولوی صاحب بھی اس کی زندہ دلی سے واقف تھے لہٰذا وہ حضورﷺ اور صحابہ اکرامؓ کی سخاوت کے واقعات زیادہ دلنشین انداز سے سنایا کرتے تھے تاکہ چوہدری نہ صرف خود زیادہ سے زیادہ نذرانے دے بلکہ گاﺅں والوں کو بھی قائل کرسکے۔
آج ماہ رمضان کا پہلا دن تھا چنانچہ چوہدری نے استقبال رمضان کے سلسلے میں ختمِ قرآنِ پاک کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں ختم شریف کی دُعا پڑھنے سے پہلے مولوی صاحب نے پہلی مرتبہ علی پور کے رہائشیوں کو سختی سے نماز، روزے کی پابندی کروانے کی خاطر آخرت کے عذاب اور عذاب قبر سے ڈرا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے اپنی چھوٹی سی تقریر میں عذابِ الٰہی پر ایسی جوشیلی تقریر کی کہ محفل کے تمام حاضرین کی آنکھوں میں آنسو رواں ہوگئے تھے۔
یہ جون کا آخیر تھا اور آسمان پر کہیں بھی بادلوں کی ایک ٹکڑی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ خشک آسمان کی وجہ سے سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ آگ برس رہا تھا۔ لوگ اپنے گناہوں کی بخشش کے ساتھ ساتھ گرگرا کر خدا کے حضور بارش کی دعائیں مانگ رہے تھیں کیونکہ مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ خشک سالی ہمارے بداعمال ہی کا نتیجہ ہے کہ بارشیں نہیں ہو رہی ہیں۔
علی پور گاﺅں کے تمام افراد اَن پڑھ تھے اور ویسے بھی ان لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ ہم نے پڑھ لکھ کر کرنی تو کھیتی باڑی ہی ہے اور کھیتی باڑی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں۔ اِن کے نزدیک تعلیم غیر ضروری عمل تھا اور وہ غیر ضروری عمل کے لیے وقت اور پیسہ برباد کرنا ناسمجھی سمجھتے تھے۔اِن لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا اور یہ لوگ تعلیم کی کمی کی بنا پر کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے ناآشنا تھے اور وہ ابھی تک کھیتی باڑی صدیوں پرانے طریقے بروئے کار لا کر سرانجام دیتے تھے جس کی بنا پر ان کی پیداوار کم ہوتی تھی اور کم پیداوار کی بنا پر وہ لوگ مالی طور پر خوشحال نہ تھے جس کی بنا پر ان کے گھروں کی دیواریں کچی اور چھتیں کھپریل کی بنی ہوئی تھیں۔
موسم گرما کا گرم ترین دن، قیامت خیز گرمی برسا کر ختم ہوچکا تھا اور رات ہونے کے باوجود ہوا کے جھونکوں میں حدت کافی حد تک تھی چنانچہ لوگ روز کی طرح آج بھی اپنے گھروں کے کھلے برآمدوں میں چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادلوں کی ٹکڑیاں نمودار ہونا شروع ہوگئیں جس کی وجہ سے موسم کی حدت میں کافی حد تک کمی واقع ہوگئی۔ لوگوں کو توقع تھی کہ یہ کالی گھٹا گھر کر برسے گی کہ آناً فاناً کالی گھٹاﺅں میں سے ہوا کا بگولہ اُبھرا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گاﺅں کو نیست و نابود کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے بگولے کی تندو تیز ہوا کے جھونکوں سے بچنے کے لیے چودھری کے گھر پناہ لے لی تھی کیونکہ پورے گاﺅں میں صرف چوہدری کا گھر ہی پکی اینٹوں کا بنا ہوا تھا اور وہ بگولے کی شدت کا مقابلہ بڑی آسانی کے ساتھ کرسکتا تھا۔ لیکن پھر بھی بگولے کی وجہ سے بہت سا قیمتی جانی اور مالی نقصان ہوچکا تھا۔
بگولہ اپنی تباہی و بربادی پھیلا کر چلا گیا تھا۔ لوگوں کو آج سے دو دن بیشتر کی ہوئی مولوی صاحب کی تقریر یاد تھی جس میں انہوں نے عنقریب عذابِ الٰہی کی نوید سنائی تھی چنانچہ ہر کوئی اسے عذاب الٰہی قرار دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ خدا نے ہماری سیاہ کاریوں کی وجہ سے ہمارے اوپر اس بگولے کی شکل میں عذاب نازل کیا ہے لہٰذا ہمیں اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے دعائیں مانگنی چاہیں تاکہ اللہ ہماری مشکلیں آسان کر دے۔ گاﺅں والوںکی سوچ کے برعکس چوہدری فضلو نے اِس بگولے کا کچھ زیادہ ہی اثر لیا تھا کیونکہ وہ گاﺅں کا سربراہ تھا چنانچہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ عذاب اس کی بداعمالی کی وجہ سے آیا ہے اور کسی نیک شخص کی دعاﺅں کی بدولت زیادہ جانی و مالی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ لہٰذا اس نے یہ پختہ عزم کر لیا تھا کہ میں آج جمعتہ المبارک کے بابرکت دن خدا کے حضور گرگرا کر اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگ کر آئندہ کے لیے توبہ کر لوں گا اور پھر آج سے ہی پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کیا کروں گا۔ وہ دل ہی دل میں یہ پکا عہد کرچکا تھا چنانچہ وہ نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر قصبے کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے چلا گیا تھا۔
 جمعے کی تقریر میں مولوی صاحب نے رات کے بگولے کی بنا پر اپنی تقریر کا موضوع ”عذابِ الٰہی“ رکھا تھا چنانچہ مولوی صاحب اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیلی ویژن کو نہ صرف بُرا بَھلا کہہ رہے تھے بلکہ اس تباہی کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرا رہے تھے۔ اپنی تقریر میں وہ لوگوں کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ ہمارے اعمال کی بربادی کا سبب ٹیلی ویژن ہے، جس پر بیہودگی، بے حیائی عام ہے، اس کو دیکھ کر ہمارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، جب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں تو کوئی دعا قبول نہیں ہوتی اور خدا ہم پر عذاب نازل کرتا ہے تاکہ ہم برائی کو سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کرسکیں۔
نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد چوہدری گھر کے اندر داخل ہوا تو اس کے بچے ٹیلی ویژن پر ڈرامہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے جس کی بنا پر گھر میں بہت ہلاگلا برپا تھا۔ چوہدری چونکہ مولوی کی تقریر سے بہت زیادہ متاثر ہو کر یہ بھی عہد کرچکا تھا کہ میں اب ٹیلی ویژن نہیں دیکھوں گا اور نہ ہی اپنے بچوں کو دیکھنے دوں گا لیکن جب ہنگامہ برپا دیکھا تو اشتعال میں آگیا اور اشتعال میں نزدیک پڑی ہوئی اینٹ پکڑ کر ٹیلی ویژن پر دے ماری اور ٹیلی ویژن توڑ پھوڑ کر سختی کے ساتھ بچوں کو آئندہ کے لیے ان فضولیات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ان کو نصیحت کرتا ہے کہ تم آخرت کے عذاب سے ڈرو اور نماز، روزے پر سختی سے عمل پیرا ہو جاﺅ۔
بچوں نے اچانک باپ کی سخت طبیعت دیکھی تو وہ گھبرا کر اِدھر اُدھر ہوگئے تاکہ باپ کی مزید ڈانٹ ڈپٹ سے بچ سکیں۔ اِن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کا باپ کس بات پر خفا ہو کر ٹیلی ویژن توڑ بیٹھا ہے حالانکہ آج سے پہلے تو اس نے کبھی بھی ٹیلی ویژن دیکھنے سے منع نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو خود ان کے ساتھ بیٹھ کر بڑے شوق سے ٹیلی ویژن دیکھا کرتا تھا۔ بہرکیف باپ کی اشتعال آمیز طبیعت دیکھ کر وہ دوسرے کمرے میں سہمے بیٹھے تھے اور باپ کا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے کہ کہیں وہ اور زیادہ اشتعال میں آ کر مارنے پیٹنے ہی نہ لگ جائے۔
بچوں پر غصہ نکالنے کے باوجود چوہدری کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی بیوی پر بھی بَرس رہا تھا اور اسے سختی سے کہہ رہا تھا کہ تمہارے خواہ مخواہ کے لاڈ پیار نے ان کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ گاﺅں میں قیامت صغریٰ گزر چکی ہے اور یہ بیٹھے مزے سے ٹیلی ویژن ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے گاﺅں میں انسان نہیں جانور مرے ہوں اور خبردار آئندہ سے کسی نے ریڈیو پر گانے بھی سنے ہوں ورنہ میں اسے بھی توڑ کر رکھ دوں گا۔
دوسرے دن چوہدری فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھ گیا اور صحن میں سوئے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کو جگایا پھر ان کو مسواک کروا کر نہلا دھلا کر اپنے ساتھ ایک میل دور قصبے کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے لے گیا۔ نماز پڑھ کر وہ بہت خوش تھا کیونکہ آج اس نے نہ صرف خود فجر کی نماز باجماعت پڑھی تھی بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی پڑھائی تھی۔ اس نے نماز کی ادائیگی کے بعد خوشی خوشی اپنے دونوں بیٹوں کو گھر کی طرف روانہ کر دیا اور خود شوگر فیکٹری میں اپنے گزشتہ سال کی فصل کے پیسے لینے کے لیے چلا گیا۔
فیکٹری انتظامیہ رقم کی ادائیگی مزید لیٹ کرنے کی خاطر حیل و حجت سے کام لے رہی تھی جس کی بنا پر بحث و مباحثہ طول پکڑ گیا اور اسے دوپہر فیکٹری میں ہی ہوگئی لیکن پھر بھی اسے رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور وہ فیکٹری انتظامیہ کو کوستا ہوا گھر واپس آ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر مولوی صاحب پر پڑ گئی جو کندھے پر بڑا سا ڈبہ رکھے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ مولوی صاحب کو دیکھ کر اس کے دل میں فوراً ان کا ادب و احترام جاگ اٹھا اور وہ سلام کرنے کی خاطر تیز تیز چلتا ہوا مولوی صاحب کے پاس پہنچ کر سلام کرنے کے بعد عرض کرنے لگا:
”مولوی صاحب اگر گستاخی نہ ہو تو میں اس ڈبے کو اٹھا کر گھر تک پہنچا دوں۔“
”نہیں نہیں چوہدری! میں اس کو لے جاﺅں گا تم تکلیف نہ کرو۔“
”مولوی صاحب تکلیف کیسی، آپ ہمیں نمازیں پڑھاتے ہیں اور دین و دنیا کی اچھی اچھی باتیں سیکھاتے ہیں، آپ کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس میں تکلیف کی کوئی بات نہیں لہٰذا آپ یہ مجھے دے دیں، میں اِس کو تمہارے گھر تک پہنچا دوں گا۔“
”چوہدری میں نے کوئی وزنی چیز نہیں اٹھائی ہوئی اس لیے تم تکلف نہ کرو یہ ہلکے سے وزن کا ٹیلی ویژن ہے جسے میں آسانی کے ساتھ گھر تک لے جاﺅں گا۔“
”مولوی صاحب ٹیلی ویژن آپ اپنے گھر کے لیے لے کر آ رہے ہے۔“ چوہدری نے بڑی حیرانگی سے پوچھا تھا۔
”چوہدری تُو تو جانتا ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن ہر گھر کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اس میں بچوں کی تفریح کے بڑے بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں۔ بچے ان کو دیکھنے کے لیے ضد کرتے رہتے تھے لیکن میں ان کی خوشی کی خاطر ٹیلی ویژن نہیں خرید سکتا تھا کیونکہ میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی لہٰذا اب میری کمیٹی نکلی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس رقم سے بچوں کی دل لگی کے لیے ٹیلی ویژن ہی خرید لیا جائے سو میں نے بچوں کی خاطر ٹی وی خرید لیا۔“
”لیکن مولوی صاحب آپ تو جمعہ کے خطبے میں ٹیلی ویژن کو بیہودہ چیز کہہ کر اسے عذابِ الٰہی کا وسیلہ قرار دے رہے تھے۔“ چوہدری ذرہ سخت لہجے میں مولوی کو اپنی کہی ہوئی بات یاد کروا رہا تھا لیکن مولوی بھی بڑا سمجھ دار تھا اس نے ٹیلی ویژن کے حق میں پہلے ہی دلائل یاد کر رکھے تھے اسی لیے تو وہ ترقی بہ ترقی جواب دینے لگا۔
”میں نے بالکل کہا تھا لیکن میری بات کا مطلب یہ تھا کہ بذات خود ٹیلی ویژن بُرا نہیں بلکہ اس پر چلنے والے مختلف ممالک کے چینل بُرے ہیں، انہوں نے ہی تو ٹیلی ویژن کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کا چینل پی ٹی وی بڑے بڑے اچھے مذہبی اور اخلاقی پروگرام دکھاتا ہے اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔“
مولوی کی بات سُن کر اس کے تن بدن میں چنگاریاں پُھوٹ پڑی تھیں۔ آج اُسے مولوی دراز ریش اور سر پر سفید عمامہ پہنے ہوئے شیطان دکھائی دے رہا تھا۔ کیونکہ اس کے اندر اپنی کہی ہوئی بات پر خود عمل کرنے کی صلاحیت موجود نہ تھی۔ یہ تنخواہ دار مولوی صرف اپنی تنخواہ کی خاطر منبر پر بیٹھ کر اسلام اسلام کر سکتا تھا۔ عمل کی صلاحیت اس کے اندر نہ تھی۔ مولوی کی دوغلی شخصیت دیکھ کر اسے خود پر بھی غصہ آ رہا تھا کہ میں نے کیوں مولوی کی تقریر سے متاثر ہو کر اپنے معصوم بچوں کی چھوٹی سی خوشی کو پامال کر دیا تھا۔ وہ غصے سے مولوی کی طرف دیکھ رہا تھا جو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔
—————

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بگل والا ........ تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

ڈوبتی پہچان ......... تحریر : ڈاکٹر رشید امجد

وارڈ نمبر 6