معاہدہ
جلدی جلدی قدم بڑھاتے ہوئے میں نے سڑک پار کی۔ کار کے پاس آئی، شاپنگ کے بیگز سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا۔ چیزیں رکھیں اور نظر گھڑی پر ڈالی بہت دیر ہو چکی تھی۔ اچانک کسی نے مجھے میرے نام سے آواز دی۔ ”شازیہ“۔ میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو ایک مانوس چہرے کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔
”شازیہ تم سے ایک ضروری کام ہے۔ شام کو سٹی ریسٹورنٹ میں تم سے ملوں گا۔“ رازدارانہ انداز میں مجھ سے یہ بات کہہ کر اچھو بھائی پاس کی گلی میں گھس گئے۔
میں سارا دن گھر میں اِسی اُدھیڑ بَن میں رہی کہ اچھو بھائی کو مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ اِسی اُلجھن میں گھر کے کام میں بھی دل نہیں لگا۔ کوئی بھی کام کرتی بار بار اچھو بھائی کا شیطانی چہرہ نظر آتا۔ میں اچھو بھائی کی گزشتہ زندگی اور اس کی ”ترقی“ کے بارے میں سوچتی رہی۔
اچھو بھائی ایک بد نام دلال تھا۔ اس نے لاہور کے بدنام محلے ہیرا منڈی میں کاروباری زندگی کی ابتداجرم و گناہ سے کی تھی۔ وہ لوگوں کو ہیروئن کی پُوریاں بیچتا تھا ۔ اِس کاروبار سے اس نے بہت کمایا اور پھر مزید دولت سمیٹنے کی خاطروہ ایک قدم اور آگے بڑھا۔ اِس نے نشہ آور اشیاءکے ساتھ ساتھ گھر سے بھاگی ہوئی،آوارہ اور بدچلن لڑکیوں سے جسم فروشی کا کاروبار شروع کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ اس کی ترقی کا آخری زینہ ہے، کیونکہ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اسی دھندے میں جما ہوا تھا اور اس دھندے میں وہ خود کو کافی حد تک منوا چکا تھا۔ دس سالہ بزنس میں اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی بھی پولیس نے ہاتھ نہیں ڈالا۔
سارا دن رہ رہ کر مجھے وہ منحوس دن یاد آ رہا تھا جب میری ملاقات اچھو بھائی سے ہوئی تھی۔ میرا جنم ایک غریب گھرانے میں ہوا تھا، مفلس اور افلاس میں پلی بڑی تھی لیکن غلط راستے پر کبھی بھی نہیں چلی تھی حالانکہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا سو کر رات گزاری لیکن قدم کبھی غلط راستے پر نہ پڑیں۔ آخر غربت سے تنگ آکر ایک دن لاہور آنے کی ٹھان لی، صرف یہ سوچ کر کہ بڑے شہر میں ہوسکتا ہے کوئی اچھی نوکری ہی مل جائے لیکن پندرہ دن لاہور کی شاہراہوں کی خاک چھاننے کے باوجود بھی نوکری نہ ملی۔تھوڑی بہت رقم جو میں گھر سے لے کر نکلی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی،اوپر سے ہوٹل کا کرایہ الگ سے پڑ رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں ہوٹل مینجر کی باتوں میں آکر اچھو بھائی کی کٹ پتلی بن کر رہ گئی وہ میرے منہ مانگے دام لگاتا اور مجھے اس کے آدھے سے بھی کم دیتا تھا۔
پھر قسمت نے یاوری کی اور مجھے نوکری مل گئی تو اچھو بھائی کو چھوڑ کر شرافت کی زندگی بسر کرنے لگی تھی، شریف تو پہلے بھی تھی لیکن مجبوریوں نے مجھے گندگی میں دکھیل دیا تھا لیکن اب شادی شدہ زندگی میں دوبارہ اچھو آ ٹپکا تھا تو دل منہ کو آتا تھا۔
شام کو میں ڈرتے ڈرتے گھر سے نکلی۔ کافی دیر گاڑی اِدھر اُدھر یوں ہی گھوما کر میں ریسٹورنٹ میں پہنچی تاکہ اچھو بھائی سے مل کر اسے سمجھاﺅ کہ وہ میرا پیچھا چھوڑ دے، اب میں پولیس انسپکٹر کی بیوی ہوں اور میرے ساتھ دشمنی رکھنا خود اس کے لئے اچھا نہ ہوگا۔ ریسٹورنٹ میں اِدھر اُدھر نظر ڈال کر دیکھا تو آس پاس وہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اچھا ہوا اس منحوس کے ساتھ مڈھ بھیڑ نہیں ہوئی۔جیسے ہی میں گھر واپس جانے کے لیے ریسٹورنٹ کے دروازے کی طرف بڑھی، میرے کانوں میں آواز آئی ”شازیہ .... میں یہاں ہوں۔“
میرے پاﺅں جیسے زمین سے چپک گئے۔ وہ دبے پاﺅں میرے قریب آیا۔ میں نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ اردگرد کوئی نہ تھا۔
”شازیہ“ اس نے ہاتھ کرسی کی طرف بڑھاتے ہوئے دہرایا۔ بغیر کچھ کہتے ہوئے میں کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔ چند لمحے تک میں اس کو دیکھتی رہی۔ اس میں خاصی کشش آگئی تھی۔ اس کے گھنے بال، گھنی داڑھی سے چہرہ خاصا پُرکشش محسوس ہو رہا تھا لیکن حالات کا تقاضا تھا کہ مجھے یہاں سے فوری جانا چاہیے تھالیکن اُس نے ایک لمحہ کے لئے رکنے کا کہہ کر مجھے وہیںرکنے پر مجبور کر دیا۔
شام کا وقت تھا۔ ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ بچے ریسٹورنٹ میں لگے جھولوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،غرضیکہ ہر شخص اپنی دھن میں مگن تھا۔
”تم مجھے کیوں ملنا چاہتے ہو؟“ میں نے اپنا بیگ میز پر رکھتے ہوئے پوچھا اور ساتھ ہی دوسرا سوال کہہ دیا۔
”تمہیں کتنے پیسے چاہیے، پچھلی باتوں کو بھول جانے کے لیے؟“
وہ مسکرایا۔
” اب میں پُرانے والا اچھو نہیں رہا، میں اِس ریسٹورنٹ کا مالک ہوں۔ میں پندرہ سال سے یہاں ہوں۔ پندرہ برسوں سے گھر ہی نہیں گیا اور نہ ہی اِس عرصے میں اپنے بیوی بچوں سے ملا ہوں۔ میری غیر موجودگی میں میرے اکلوتے بیٹے نے لَو میرج کر لی ہے ۔ اَب جبکہ بیٹے کی شادی ہوچکی ہے اور عنقریب میں دادا بننے والا ہوں اِس لیے میرا بیٹا اِسرار کرتا ہے اور اُس کا اِسرار بڑھتا ہی جا رہا ہے کہ میں گھر واپس آﺅں اور اپنی بہو سے ملوں اور اُس کے ہونے والی اولاد کو دادا کی شفقت دوں۔ میں پہلے گھر جانے سے ڈرتا تھا لیکن اب میں ضرور جانا چاہتا ہوں۔“ اِس کی آنکھوں میں ایک چمک سی جاگ اُٹھی۔
”اچھا بتاﺅ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
”شازیہ! تمہیں ایک آفر پیش کرنے آیا ہوں جس سے تمہاری اور میری زندگی بن جائے گی، جس سے ہماری دونوں کی زندگی بھٹکنے سے بچ جائے گی۔ تم اپنی ہو، اس لئے تم کو آفر کر رہا ہوں۔“ اُس نے سرگوشی سے کہا۔
میں بھڑک اُٹھی اور اُسے جھڑکنے ہی والی تھی کہ اس نے دانت نکالتے ہوئے بات پوری کی۔ ”ہم دونوں اپنا ماضی اِس طرح بھول جائیں جیسے ہم نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہ ہو، کیونکہ تم میری ہی بہو ہو اور ہم دونوں کا ماضی ہمارے گھر میں کوئی دوسرا نہیں جانتا!“
—————
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں